اڑتے بادل بزرگوں کی شفت بنے دھوپ میں لڑکیاں مسکراتی رہیں
جب سے جانا کہ اب کوئی منزل نہیں منزلیں راہ میں آتی جاتی ہیں

رات پریاں فرشتے ہمارے بدن مانگ کر برف میں جل رہتے تھے مگر
کچھ شبیہیں کتابوں کے بجھتے دیے کاغذی مقبروں میں جلاتی رہیں

سارے دن Ú©ÛŒ تپی ساØ+Ù„ÛŒ ریت پر دو تڑپتی ہوئی مچھلیاں سو گئیں
اپنے ملنے کی وہ آخری شام تھی لہریں آتی رہیں لہریں جاتی رہیں

ننگے پاؤں فرشتوں کا اک طائفہ آسماں سے زمیں پر اترنے لگا
سر برہنہ فلک زادیاں عرش سے آنسووں کے ستارے گراتی رہیں

اک دریچے میں دو آنسوؤں کا سفر رات Ú©Û’ راستوں Ú©ÛŒ طرØ+ Ú©Ú¾Ùˆ گیا
نرم مٹی پہ گرتی ہوئی بتیاں سونے والوں کو چادر اڑھاتی رہیں
***